دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر مکمل ہونےسے 4800 میگاواٹ کے قریب بجلی حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور تربیلا ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔
ایک اور پہاڑی نقش کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر جیسن نیلس کا کہنا تھا کہ بدھ مت کی اس ڈرائنگ میں گندھارا زبان میں لکھائی ہوئی ہے جو کہ بتاتی ہے کہ بخش یعنی راہب سٹوپا کی عمارت میں عبادت کر رہے ہیں۔یہ پہاڑی نقش و نگار ٹیکسلا، سوات اور گندھارا میں موجود آثارقدیمہ سے ملتے جلتے ہیں
پروفیسر ڈاکٹر جیسن نیلس کے مطابق دریائے سندھ کے آر پار سٹوپا کے اور بھی خاکے موجود ہیں جن میں لکھائیاں برہمی رسم الخط میں ہیں جن کو سنسکرت زبان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
<
ڈاکٹر جیسن کے مطابق ایک اور پہاڑی نقش جن میں شکاریوں، مختلف آلات، نشانات اور پہاڑی بکرے کی تصاویر ہیں سے اندازہ ہے کہ یہ بدھ ازم کے دور کے بعد کی تصاویر ہیں، جن میں عقائد اور تہذیب و تمدن تبدیل ہو رہے ہیں
ڈاکٹر جیسن کا کہنا تھا کہ اس ورثہ کا کچھ نہ کچھ حصہ تو مختلف صورتوں میں محفوظ ہے۔ پاکستانی دانشور مرحوم پروفیسر احمد حسن دانی کی کتابوں کے علاوہ جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی کے تحقیق دانوں کی پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر کتب کے پانچ شمارے چھپ چکے ہیں۔ یہ کتب انتہائی قیمتی ہیں، مگر ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
دیامر بھاشا ڈیم، چلاس، گلگت بلتستان، آثار قدیمہ،تصویر کا ذریع
اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید طریقے اختیار کر کے ان قیمتی نقوش و نگار اور لکھائیوں کو محفوظ کیا جائے تاکہ ثافتی ورثے کو نقصان سے بچایا جاسکے۔
No comments:
Post a Comment
If you have any doubt please comment..